محمدشارب ضیاء رحمانی
این ڈی ایم سی نے دہلی کے اورنگ زیب روڈ کا نام اے پی جے عبدالکلام
روڈکردیاجس پروزیراعلیٰ اروند کجریوال نے ٹویٹ کرکے این ڈی ایم سی
کومبارکبادپیش کی ہے ۔مغل بادشاہوں میں اکبرفرقہ پرستوں کے نزدیک قابل
احترام ہے کیونکہ اس نے دین الٰہی کی بنیادڈالی تھی،دوسری طرف اورنگ زیب سے
انہیں پیدائشی بیرہے۔حالانکہ اورنگ زیب کا سیکولرزم توآج کے حکمرانوں سے
زیادہ واضح ہے ۔ حقائق کی جستجورکھنے والوں کواورنگ زیب کی مذہبی رواداری
اوران کی وسعت ظرفی سے متعلق تفصیلی اورمدلل معلومات کے لئے ڈاکٹربی این
پانڈے کی کتاب ’’ہندومندراوراورنگ زیب عالمگیرکے فرامین‘‘کامطالعہ
ضرورکرناچاہئے جس میں دلائل وشواہدکے ساتھ یہ ثابت کیاگیاہے کہ ان پرسخت
گیری کاالزام غلط ہے،انہوں نے توشترنجہ اورآبوکے مندرکے لئے 1658میں زمین
دی تھی نیزجوناگڑھ اورآبوجی پہاڑی کوبھی انہوں نے12مارچ
1660کوعطاکیاتھااورساتھ ہی ساتھ عمال کوکسی قسم کے تعرض سے سختی کیساتھ منع
بھی کیا۔انہوں نے اگروشوناتھ مندرکوتوڑاہے توجامع مسجدگولکنڈہ کے انہدام
کابھی حکم دیاہے،لیکن تاریخی واقعات میں غلط بیانیوں اورتاریخی کرداروں
کومسخ کرنے کی وجہ سے ارونگ زیب کی شبیہ کٹروادکی بناکرپیش کی جاتی
ہے۔جوسراسرحقیقت کے خلاف ہے۔
یہ نہیں بھولناچاہئے کہ اورنگ زیب روڈکے نام کی تبدیلی کامطالبہ اوکھلاسے
بی جے پی ایم پی مہیش گیری نے کیاتھا۔فرقہ پرستانہ ایجنڈے پرعمل پیراہونے
کیلئے بہت خوبصور ت عنوان اختیارکیاگیا،یقیناََسابق
صدرکواعزازبخشاجاناچاہئے لیکن فرقہ پرستی کی قیمت پرنہیں۔وزیراعظم
اوروزیراعلیٰ کے کلیجہ میں اتنی وسعت نہیں کہ نئی سڑک کوسابق صدرکے نام سے
موسوم کریں،انگریزوں کے نام سے موسوم سڑکیں کیاایک سچے محب وطن کے نام
نہیں ہوسکتی تھیں،دہلی میں کئی سڑکیں انگریزوں کے نام ہیں۔میزائیلوں کانام
اگنی ،پرتھوی تورکھاجاسکتاہے لیکن اس میزائیل مین کا نام اسے کیوں نہیں
رکھاجاسکتاجس نے ملک کوایٹمی طاقت سے مالامال کیا۔یہ بھی مطمح نظررہے کہ
دوتین ماہ قبل فیروزشاہ تغلق روڈکے نام سے موجودکتبے پرپرسیاہی پوتی گئی
تھی،فرقہ پرستوں کوایک آنکھ یہ نہیں بھارہاہے کہ دہلی کی سڑکیں عظیم مسلم
شخصیتوں کے نام پر ہیں۔کجریوال جی کواس کی تائیدبلکہ پیٹھ ٹھوکنے کی بجائے
یہ کہناچاہئے تھاکہ این ڈی ایم سی کسی اورسڑک کوسابق صدرکے نام کرے،کسی
مسلم شخصیت کے نام کی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔آخر ایساکیوں ہوتا،ان کی
پارٹی کاجنم بھی تواناہزارے کی تحریک سے ہواہے جسے آرایس ایس نے ہوادی
تھی۔اسی طرح کجریوال یہ نہیں بتاسکتے کہ انہوں نے سکھوں کے لئے ایس آئی ٹی
کی تشکیل توکی لیکن بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹرپرقدم کیوں نہیں اٹھایا۔مسلم مسائل
پروہ بدستورخاموش ہیں۔پھران کے اسکول کے زیادہ ترہم جماعت امت شاہ
اینڈکمپنی میں جاب لے چکے ہیں۔اورترس تواس پرآتاہے کہ ان کی پارٹی کے مسلم
ایم ایل اے اپنے گروسے اس فرقہ پرستانہ حرکت پرجواب کیوں نہیں مانگ رہے
ہیں، وہ کیوں بھول گئے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں انہیں مسلمانوں نے
ریکارڈووٹوں سے کامیابی دلائی ہے بلکہ کم ازکم تیس سے پینتیس سیٹوں
پرمسلمانوں نے متحدہوکرفیصلہ کن ووٹنگ کی ہے جس کانتیجہ ہے کہ کجریوال
تاریخی اکثریت لے کربرسراقتدارہیں،لیکن اورپارٹیوں کی طرح انہوں نے بھی
مسلمانوں کوووٹ بینک بنادیا،چھ ماہ میں مسلمانوں کے تعلق سے کون سے فیصلے
انہوں نے کیئے ہیں،وہ مسلمانوں کے ووٹ کی قیمت پرپانچ برسوں تک
اقتدارپربراجمان رہیں گے لیکن انہیں یہ نہیں بھولناچاہئے کہ مسلمان جس طرح
متحدہوکرانہیں اقتدارکی کرسی پربیٹھاسکتاہے اسی طرح انہیں محروم بھی
کرسکتاہے۔
دہلی میں مسائل کاانبارہے،چھ ماہ ہوگئے ،کجریوال جی کے آنے سے
کیابدلا،سڑکیں بدستورخستہ حال ہیں،گندگی ہرجگہ پھیلی ہوئی ہے،ٹریفک اورجام
لگ جاناعام سی بات ہے۔مسلم علاقوں کی بات چھوڑدیجئے ،انہیں پوچھ ہی کون
رہاہے، کسی بھی علاقہ میں چلے جایئے ،بسوں کاگھنٹوں انتظارکرناپڑتاہے،پرانی
دہلی ریلوے اسٹیشن سے لیکردریاگنج تک ،نظام الدین برج سے آشرم اورمہارانی
باغ تک جہاں بھی چلے جایئے دس منٹ کے راستے دو،ڈھائی گھنٹوں میں طے ہوتے
ہیں،کجریوال جی کویہ سب نظرنہیں آتا،ہاں اوکھلاکے ایم ایل اے نے اعلان
کیاہے کہ یہاں پانچ ہزارسی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں گے،بھلاسی سی ٹی وی
کیمروں کی کیاضرورت پڑگئی،بجلی کی حالت اوکھلامیں انتہائی خرا ب ہے ،پانچ
چھ گھنٹوں تک بجلی کاگل ہوناعام سی بات ہے،تھوڑی بارش کے بعدگلی تک میں
نکلنادشوارہوجاتاہے،اوکھلاہیڈپرہردن جام لگتاہے،بسوں کی کمی ہے،روزانہ
اخبارا ت میں علاقہ کی بدحالی کی تصویرسامنے آرہی ہے لیکن ایم ایل اے صاحب
کی توجہ ان چیزوں پرنہیں ہے،ووٹروں نے تویہ سوچ کراوریقین دہانیوں پریقین
کرکے انہیں ریکارڈکامیابی سے ہمکنارکیاتھاکہ اب سارے مسائل حل ہوجائیں گے
لیکن مسائل بڑھ رہے ہیں ،حل کیاہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اوکھلاسے سابق
ایم ایل اے نے کالندی کنج روڈپر اورنگ زیب روڈکابورڈلگادیاہے،دیکھناہے کہ
مسلمانوں کے سب سے بڑے ہمدرد ایم ایل اے امانت اللہ کاکیاردعمل
آتاہے۔بہترہوتا کہ
کجریوال صاحب فرقہ پرستی کے فروغ کے بجائے ترقی کے کاموں
پردھیان دیں اورانہوں نے جومبارکبادپیش کی ہے اس پرمعافی مانگتے ہوئے
روڈکاپرانانام برقراررکھیں،ورنہ مسلمان ساڑھے چاربرسوں کے بعدان کی ذہنیت
پران سے حساب مانگیں گے توان کے پاس اورنہ ان کے مسلم ایم ایل اے کے پاس اس
کاکوئی جواب ہوگا۔انہیں یہ یادرکھناچاہئے کہ مسلمانوں نے انہیں موہن
بھاگوت کے منصوبہ کوعملی جامہ پہنانے کیلئے نہیں،بلاتفریق ترقیاتی کام کرنے
کیلئے اقتدارسونپاہے۔
کجریوال صاحب کے علاوہ ملائم سنگھ کی اصل تصویرسامنے آگئی ہے ، مودی کے
تئیں نرم رویہ اپنانے کے بعدملائم سنگھ اب سخت نہیں ہوں گے۔ذرائع کے مطابق
ایس پی سپریمونے دہلی میں گذشتہ دنوں پی ایم سے ملاقات کی تھی،مودی نے کون
سی ایسی من کی بات کرلی کہ اس ملاقات کے بعدہی بدلے بدلے سے میرے
سرکارنظرآتے ہیں۔ یہ بھی یادرکھناچاہئے کہ پارلیمنٹ میں کانگریس کی پالیسی
کی مخالفت کرتے ہوئے ملائم سنگھ نے اسے الٹی میٹم بھی دیاتھا۔اس سے قبل
ملائم سنگھ کی آرایس ایس لیڈروں کے ساتھ بندکمرے میں خفیہ ملاقات کی بھی
خبریں ہیں۔ریاست کے اس وقت کے گورنر مظفرنگرفسادات پرا پنی رپورٹ میں
ریاستی حکومت کوہی ذمہ دارقراردے چکے ہیں۔ان کے سنیئروزیراعظم خان کوسیفئی
فیسٹول کی رنگ ریلیوں میں جانے کاتوموقعہ ملتاہے لیکن فسادات سے
متاثرعلاقوں کے دورہ کی فرصت نہیں؟۔ مسٹرملائم سنگھ نے فرقہ پرستوں کے
سیاسی کیریئرکوجلابخشنے میں اہم کرداراداکیاہے۔ کلیان سنگھ کوگودمیں کس نے
بیٹھایا؟۔ان خاطی پولیس اہلکاروں کے خلاف کیوں نہیں کاروائی کی جن کی حراست
میں خالدمجاہدکی شہادت ہوئی ،پھران بے گناہ مسلم نوجوانوں کی برات سے
متعلق نمیشن کمیشن کی رپورٹ پرچپکی کیوں سادھ لی گئی؟۔ سنگھیوں پرگولی
چلاکرواہ واہی لوٹنے والے ’’مولاناجی‘‘آرایس ایس سے اپنی’’ غلطی‘‘ پر معافی
مانگ بھی چکے ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ کیااس سوال کاجواب دے سکتے
ہیں کہ ورون گاندھی سے مقدمہ ہٹانا،استھان سانحہ میں توگڑیا پرمقدمہ نہ درج
کر نا، فرخ آباد میں وشوہندو پریشد اور سنگھ پریوار کے فرقہ وارانہ دہشت
گردوں پر سے مقدمے واپس لینا،کانپورمیں 1992میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے
وقت کے ایس ایس پی اے سی شرما جن کے مجرمانہ کردار کی تحقیقات کے لئے
ماتھر کمیشن کاقیام کیاگیاتھا،اس پرکارروائی کرنے کی بجائے اسے ریاست کے
پولیس کا سربراہ بناناکیایہی سب سیکولرزم کی علامت ہیں۔ملائم سنگھ بارباریہ
کہہ رہے ہیں کہ بیشترانتخابی وعدے انہوں نے پورے کرلئے جب کہ حقیقت یہ ہے
کہ مسلمانوں سے کئے گئے وعدے تاحال پس منظرمیں ہیں۔مسلمانوں کو2017کے
اسمبلی الیکشن کے لئے ابھی سے لائحہ عمل تیارکرناہوگاتاکہ سیکولرزم کاچولہ
اوڑھ کرایک مرتبہ پھرمسلمانوں کوجھانسانہ دیاجاسکے۔ملائم سنگھ کے علاوہ
نتیش کمارجی بھی کہیں سے کوئی کم نہیں ہیں،بی جے پی کوبہارمیں نوے سیٹوں تک
کس نے پہونچایا۔انہوں نے بی جے پی کوتقویت دینے کی وہی غلطی کی جوکشمیرمیں
مفتی سعیدکررہے ہیں،گودھراسانحہ کے وقت یہی محترم وزیرریل تھے،اس وقت ان
کاسیکولرزم کہاں چلاگیاتھا،فاربس گنج میں مسلمانوں پراورنوادہ میں
مسجدپرگولیاں انہی کی پولیس نے چلائیں،جدیو اورراجدکااتحادسیکولرزم سے کسی
محبت اوراس کی بقاء کی فکرکے تئیں نہیں ہواہے۔ یہ سب صرف مسلم ووٹوں پر
سیاست کاحصہ ہے ،یہ اتحاد اپنے سیاسی وجودکوخطرے میں دیکھ کرہواہے۔ایم ایل
سی الیکشن میں لالونے جوگنداکھیل کھیلاوہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے،دس
امیدوارں میں سات یادواورتین بنیاکوانہوں نے ٹکٹ دیا،ٹکٹ کی تقسیم میں
انہیں مسلمان یادنہیں آئے تواب الیکشن میں انہیں صرف یادوؤں سے ہی ووٹ
مانگناچاہئے اورطرہ یہ کہ جب ان سے مسلم نمائندگی کامطالبہ کیاگیاتوان
کاجواب تھاکہ تم گھرمیں بیٹھو،بیچ میں نہیں آؤ،تمہیں ٹکٹ دیں گے توسب
ہندوایک ہوکربی جے پی کوووٹ دے دیں گے،ہم تمہاری لڑائی لڑنے کیلئے کافی
ہیں،مطلب یہ ہواکہ ساٹھ سال تک تمہیں ہم نے دلتوں سے بھی بدتربنادیا،آگے
بھی ہمارایہی منصوبہ ہے۔اس سے واضح ہوتاہے کہ اسمبلی الیکشن میں بھی وہ
مسلمانوں کونظراندازکرنے کامن بناچکے ہیں اورطرہ یہ ہے کہ قانون سازکونسل
کے الیکشن میں بھی زمینی سطح پرراجدکے کارکنان نے جدیوکے مسلم امیدواروں کے
خلاف کام کیاہے۔فی الحال بہارالیکشن کاسیاسی منظرنامہ پوری طرح واضح نہیں
ہے اس لئے اس پرتجزیہ کبھی اور........... دیکھنایہ ہوگا کہ سیکولرزم
کانقاب اوڑھ کرکون لوگ فرقہ پرست ہیں۔مسلمانوں کو جلدبازی سے کام لینے کی
ضرورت نہیں ہے۔ سیکولراتحادٹکٹوں کی تقسیم میں مسلمانوں کوکتنی نمائندگی
دیتاہے اس پرنظررکھنی چاہئے اوراس کے لئے کوششیں بھی ہونی چاہئیں،مانجھی
برادری کی سب کوفکرہے،یادو ناراض نہ ہوں ،لالوکوبہت تشویش ہے لیکن مانجھی
اوریادوؤں کے لئے رات بھرنہ سونے والوں کومسلمان نہیں یادآرہے ہیں۔سماجوادی
پارٹی نے بہارمیں الیکشن لڑنے کااعلان کردیاہے،لیکن اس کے باوجودملائم
سنگھ سیکولرہی رہیں گے اوراویسی فرقہ پرست ہی کہلائیں گے؟،سیکولرپارٹیوں
کوتواپنے سیکولرچہروں پرخودہی پچھتاواہے ۔آخرکیوں؟۔آپ دل پرہاتھ رکھ کرسوچ
لیں،جوا ب بہت آسان ہے۔